Stories in Urdu for Reading || Urdu Ki Kahani || اردو کہانیاں
Hi friends, now we have found Stories in Urdu for Reading For You. Because still many friends like to read instead of listening and if it is true then reading is better and interesting than listening. The best stories in Urdu which are mentioned below are for education purposes, that is, it has a complete result and purpose which we need to know. So read these best stories in Urdu and after reading try to know its purpose. We have written the result of each story at the bottom. Still try to fit your thinking into purpose and practical life because some of these stories are fictional but some stories are derived from some experience and the stories proven by experience are true so read these stories and do something. Knowledge is definitely obtained.
Stories in Urdu for Reading in written form
Urdu Ki Kahani (1)
*کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک کتا کنویں میں گر کر مر گیا.*.
چونکہ گاؤں میں وہ واحد کنواں تھا اس لئے لوگ بھاگے بھاگے اپنے علاقے کے مولوی صاحب کے پاس گئے اور ان سے سوال کیا کہ کنواں پاک کیسے کیا جائے..؟مولوی صاحب نے فرمایا.. “آپ لوگ کنوئیں سے چالیس بالٹیاں نکال کر پھینک دیں کنواں پاک ہو جائے گا
ایک دو دن بعد پھر گاؤں والے مولوی صاحب کے پاس پہنچے اور بولے.. “حضرت پانی تو ویسے کا ویسا ہی ہے.. آپ کے حکم کے مطابق چالیس بالٹیاں پانی نکال کر پھینک دی تھیں..” مولوی صاحب نے یہ بات سن کر پوچھا.. “کیا آپ لوگوں نے کتے کو نکال کر بالٹیاں پھینکی تھیں..?” اس پر سب بولے.. “حضرت ! آپ نے بالٹیاں نکالنے کا کہا تھا’ کتا نکالنے کا نہیں.سو دوستو ! ہم بھی گاؤں والوں کی طرح کرتے ہیں.. بغض’ نفرت’ تعصب اور لالچ کے کتے دل میں رہنے دیتے ہیں اور کچھ نمازیں’ ۔تسبیحات پڑھ کر سمجھتے ہیں دل پاک ہوگیا ۔
======================================================
Urdu Ki Kahani (2)
کسی محلے میں ایک امیر آدمی نے نیا مکان بنایااور وہاں آکر رہنے لگا یہ امیر آدمی کبھی کسی کی مدد نہیں کرتا تھا…
اسی محلے میں کچھ دکاندار ایسے تھے جو خود امیر نہیں تھے لیکن لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے ایک قصائی تھا جو اکثر غریبوں کو مفت اور بہت عمدہ گوشت دے دیا کرتا تھا.ایک راشن والا تھا جو,ہر مہینہ کچھ گھرانوں کو ان کے گھر تک مفت راشن پہنچا دیتا تھا.
ایک دودھ والا تھا جو بچوں والے گھروں میں مفت دودھ پہنچاتا لوگ مالدار شخص کو خوب برا کہتے کہ دیکھو اتنا مال ہونے کے باوجود کسی کی مدد نہیں کرتا ہے اور یہ دکاندار بے چارے خود سارا دن محنت کرتے ہیں لیکن غریبوں کا خیال بھی رکھتے ہیں.
کچھ عرصہ اسی طرح گذر گیااور سب نے مالدار آدمی سے ناطہ توڑ لیا اور جب اس مالدار کا انتقال ہوا تو محلہ سے کوئی بھی اس کے جنازے میں شریک نہ ہوا.مالدار کی موت کے اگلے روز ایک ًغریب نے گوشت والے سے مفت گوشت مانگا تو اس نے دینے سے صاف انکار کردیا…. دودھ والے نے مفت دودھ سے صاف انکار کردیا. راشن والے نے مفت راشن دینے سے صاف انکار کردیا..
پتہ ہے کیوں؟؟؟؟؟؟ ان سب کا ایک ہی جواب تھا.. اب تمہیں یہاں سے کچھ بھی مفت نہیں مل سکتا کیونکہ وہ جو تمہارے پیسے ادا کیا کرتا تھا کل دنیا سے چلا گیا ہے
نتیجہ
.کبھی کسی کے بارے میں خود سے فیصلہ نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کس کا باطن کتنا پاکیزہ ہے.
======================================================
Urdu Ki Kahani (3)
ایک شخص جنگل کے درمیان سے گزر رہا تھا کہ اس نے جھاڑیوں کے درمیان ایک سانپ پھنسا ہوا دیکھا ، سانپ نے اس سے مدد کی اپیل کی تو اس نے ایک لکڑی کی مدد سے سانپ کو وہاں سے نکالا، باہر آتے ہی سانپ نےکہا کہ میں تمہیں ڈسوں گا۔ اس شخص نے کہا کہ میں نے تمہارے ساتھ نیکی کی ہے تم میرے ساتھ بدی کرنا چاہتے ہو ، سانپ نے کہا کہ ہاں نیکی کا جواب بدی ہی ہے ،اس آدمی نے کہا کہ چلو کسی سے فیصلہ کرالیتے ہیں ، چلتے چلتے ایک گاۓ کے پاس پہنچے اور اس کو سارا واقعہ بیان کرکے فیصلہ پوچھا تو اس نے کہا کہ واقعی نیکی کا جواب بدی ہے کیونکہ جب میں جوان تھی اور دودھ دیتی تھی تو میرا مالک میرا خیال رکھتا تھا اور چارہ پانی وقت پہ دیتا تھا لیکن اب میں بوڑھی ہوگئی ہوں تو اس نے بھی خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔
یہ سن کرسانپ نے کہا کہ اب تو میں ڈسوں گا اس آدمی نے کہا کہ ایک اور فیصلہ لے لیتے ہیں ، سانپ مان گیا اور انہوں نے ایک گدھے سے فیصلہ کروایا ، گدھے نے بھی یہی کہا کہ نیکی کا جواب بدی ہے، کیونکہ جب تک میرے اندر دم تھا میں اپنے مالک کے کام آتا رہا جونہی میں بوڑھا ہوا اس نے مجھے بھگا دیا۔ سانپ اس شخص کو ڈسنے ہی لگا تھا کہ اس نے منت کرکے کہاکہ ایک آخری موقع اور دو ، سانپ کے حق میں دو فیصلے ہوچکے تھے اس لیے وہ آخری فیصلہ لینے پہ مان گیا ، اب کی بار وہ دونوں ایک بندر کے پاس گۓ اور اسے سارا واقعہ سناکرکہا کہ فیصلہ کرو۔ اس نے آدمی سے کہا کہ مجھے ان جھاڑیوں کے پاس لے چلو ، سانپ کو اندر پھینکو اور باہر پھر میرے سامنے باہر نکالو ، اس کے بعد میں فیصلہ کروں گا۔وہ تینوں واپس اسی جگہ گۓ ، آدمی نے سانپ کو جھاڑیوں کے اندر پھینک دیا اور پھر باہر نکالنے ہی لگا تھا کہ بندر نے منع کردیا اور کہا کہ اس کے ساتھ نیکی مت کر ، یہ نیکی کے قابل ہی نہیں۔ وہ بندربعض لوگوں سے زیادہ عقل مند تھا ،
نتیجہ
بعض لوگ ایک ہی شخص سے نقصان اٹھاتے ہیں لیکن کم عقلی کی وجہ سے جان نہیں پاتے لھذا اپنی کمزوری اور کسی کی احسان اور کسی پر احسان سوچ سمجھ کر کرنا۔
======================================================
Urdu Ki Kahani (4)
میں گھر میں ہونے والی ایک تلخی پر ناخوش ہو کر ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻝ ﮐﺮ ﺮﻭﮈ ﭘﺮ ﭼﻼ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ کہ پڑوس میں رہنے والے بابا جی نے روک کر پوچھا۔ بیٹا اداس لگ رہے ہو خیریت تو ہے۔ بابا جی کی بات سن کر میں نے اپنی شکائتوں کا دفتر کھول دیا۔ بابا جی زیر لب مسکرائے اور ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺭﮔﮍ ﮐﺮ اس کی چوب بنا کر بولے بھولے بادشاہ آ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺩﻭ ‘
ﺟﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮑﺮ ﮐﺮﻭ ‘ ﺟﻮ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ‘
ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﻭ ‘ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎؤ ‘
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎؤ ﮔﮯ ‘
ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ‘
ﮨﺠﻮﻡ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻭ ‘
ﺟﺴﮯ ﺧﺪﺍ ﮈﮬﯿﻞ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺣﺘﺴﺎﺏ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ‘
ﺑﻼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺳﭻ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ‘
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﻮ ‘
ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﭼﭗ ﺭﮨﻮ ‘
ﻟﻮﮒ ﻟﺬﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﺬﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺑﺮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ‘
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﯿﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻞ ﺟﺎؤ ‘
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻥ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ ‘
ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ‘ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ ‘
ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺭﮎ ﺟﺎﺋﻮ ﮔﮯ ‘
ﭼﻮﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭼﻮﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﻮ ﮔﮯ۔
ﺳﺎﺩﮬﻮﺋﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺳﺎﺩﮬﻮ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ‘
ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺟﮓ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ‘
ﻭﮦ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺍﮌ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ‘
ﺗﻢ ﺟﺐ ﻋﺰﯾﺰﻭﮞ ‘ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ‘ ﺍﻭﻻﺩ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﮍﻧﮯ ﻟﮕﻮ
ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﺍللہ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺗﻢ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﺣﻢ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﻮ
ﺗﻮ ﺳﻤﺠھ ﻟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺧﺎﻟﻖ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ
ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺎﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ‘‘
ﺑﺎﺑﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯽ ‘
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ہاتھ پھرا ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﷲ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐا سایہ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺗﮏ ﺭﮨﮯ ‘
’ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ ‘ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ
اللہ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽﻣﺨﻠﻮﻕﮐﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ ‘
ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺟﻮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ
ﻣﮕﺮﺟﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ‘ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ‘
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍللہ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮨﮯ ‘
ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﻣﯿلہ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ‘‘
ﻣﯿرے قدموں کا رخ خود بخود گھر کی طرف ہوﮔﯿﺎ کیونکہ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ نسخہ ء کیمیاء ﻣﻞ ﮔﯿﺎ تھا
======================================================
Urdu Ki Kahani (5)
اُن دنوں دادا ابو جب کبھی دور کسی عزیز کے ہاں جاتے اور وہیں پر رات کے قیام کا ارادہ کرتے تب چاچو لوگ کرائے پر وی سی آر لاتے اور رات بھر انڈین فلمیں دیکھتے رہتے .. ہمیں دادا ابو عینک والا جن اور پنک پینتھر والے کارٹونز تک نہیں دیکھنے دیتے تھے ان کا خیال تھا کہ “بچے خراب ہوجائیں گے”.. چاچو لوگ کے ساتھ فلمیں انجوائے کرنا بھی محض ایک خواب ہی تھا.. مگر پھر بھی رات کو دروازے کی جھری سے آنکھ لگا کر فلم کے کچھ مناظر دیکھ ہی لیتے..اور اگلے دن سکول جا کر بالوں کا پف بنا کر اجے دیوگن بننے کی ایکٹنگ کرتے اور کبھی اس پر پھونک مار کر ریمبو ریمبو جان ریمبو بن کر دکھاتے..ایک دن کیا دیکھا فلم میں امریش پوری ایک لڑکی کی عزت لوٹ رہا ہے… اب یہ تو معلوم نہیں تھا کہ عزت لوٹنا درحقیقت ہوتا کیا ہے مگر اندر کا کیڑا پریکٹیکل کو بیتاب تھا.. چنانچہ سکول میں جیسے ہی تفریح کا وقت ہوا اپنے دوستوں کو بتایا کہ آج میں وقاص کی عزت لوٹنے والا ہوں.. یہ بات وقاص تک پہنچ گئی وہ بھی ڈرنے لگا..
مگر بیچارہ کہاں تک بھاگتا.. گراؤنڈ میں جا لیا بیچارے کو.. اوپر چڑھ کر اچھی خاصی پپیاں کی اور دھمکیاں بھی دی کہ آئندہ مجھ سے بدتمیزی کی تو عزت لوٹ لیا کروں گا…. ایک بار ایک کھٹمل کو مار کر اسے ماچس کی تیلیاں جوڑ کر ان پر رکھا اور چِتہ جلا ڈالی.. (یہ الگ بات ہے اوپر سے چاچو نے آکر کھٹمل کے جلنے سے پہلے ہی میری درگت بنادی) خیر کچھ عرصہ بعد پرائمری کا دور ختم ہوا مڈل سکول کے دنوں میں گھر کے انٹینا پر دھندلا سا دوردرشن یا اس قسم کے کسی نام کا انڈین چینل چلنے لگا جس پر شکتی مان نامی ڈرامہ لگا کرتا تھا.. پھر کچھ عرصہ شکتی مان بن کر گزارہ.. اس کے بعد عمروعیار کی کہانیوں کا چسکا پڑ گیا.. آٹھویں جماعت میں چچا جان کو عمران سیریز پڑھتے دیکھا تو ایک دن خود اٹھا کر چوری چھپے پڑھنے لگا.. چاچو کو پتہ چل گیا لیکن حیرت انگیز طور پر اس بار چاچو نے پڑھنے سے منع نہیں کیا… اللہ بھلا کرے ان عظیم لکھاریوں کا جنہوں نے ان کہانیوں اور ناولوں کے سحر میں بچوں کو جکڑ کر مزید گمراہ ہونے سے بچا لیا..
ایک لمبے عرصے تک عمران سیریز پڑھتا رہا اور پھر دیگر ناولز پڑھنا شروع کردئیے.. اس کے بعد انٹرنیٹ کا دور شروع ہوگیا.. آج کل چھوٹا بھیم اور ڈورے مون جیسے کارٹون جب کسی بچے کو دیکھتے ہوئے پاتا ہوں تو وہی سارے کرتوت یاد آنے لگتے ہیں… ضروری نہیں کہ ہر بچہ کارٹون یا فلمیں دیکھ کر میرے جیسے کرتوت ہی دکھاتا ہو.. لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں اس کا ان کے ذہنوں پر بہت اثر پڑتا ہے.. آج کے دور میں نا تو بچوں کی کہانیاں اور عمران سیریز جیسے اصلاحی ناولز لکھنے والا کوئی اچھا لکھاری میسر ہے اور نا ہی ناولوں اور کہانیوں کو ویسی فوقیت حاصل ہے.. آج کے بچے چھوٹا بھیم دیکھ کر سارے ہندی ترانے یاد کرتے ہیں ڈورے مون دیکھ کر رومانس سیکھتے ہیں اور آگے جا کر اصلاحی ناولز کی بجائے سیدھے سوشل میڈیا کے رُکن بنیں گے… افسوس ان کی اصلاح کے سارے دروازے ہم بند کر چکے ہوں گے… اب سمجھ میں آتا ہے کہ دادا ابو ٹی وی سے کیوں باز رکھتے تھے… “بچے خراب ہوجائیں گے”۔